Saturday 20 December 2014

Kalma e Shahadat ,I bear witness that non is worthy of worthy (god) but Allah, the one alone, without partner, and I bear witness that Muhammad (PBUH) is his servent and Messenger

Kalma e Shahadat ,I bear witness that non is worthy of worthy (god) but Allah, the one alone, without partner, and I bear witness that Muhammad (PBUH) is his servent and Messenger


Kalma e Tayyaba There is no god but Allah and Muhammad PBUH is Prophet and Messanger of Allah

Kalma e Tayyaba There is no god but Allah and Muhammad PBUH is Prophet and Messanger of Allah


Eman e Mufassal and Eman e Mujammil with English translation

Eman e Mufassal and Eman e Mujammil with English translation


Sunday 19 January 2014

نظام خلقت کے چند نمونے

نظام خلقت کے چند نمونے


پوری کائنات میں ”نظم“،”مقصد“اور”نقشہ“کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔اب توجہ فر ما یئے کہ ہم ان کے چند نمونوں کو بیان کرتے ہیں:
ہم نے یہاں پر آپ کے لئے چند چھوٹے بڑے نمونے اکٹھا کئے ہیں۔
خوشبختی سے آج طبیعی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں عالم طبیعت میں انسان،حیوان،پودوں،خلیوں اور ایٹم کی حیرت انگیز عمارت کی باریک بینیوں اور ستاروں کے حیرت انگیز نظام نے ہم پر معرفت خدا کے دروازے کھول دئے ہیں۔اس لئے جر اٴت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ طبیعی علوم کی تمام کتابیں تو حید اور معرفت خدا کی کتابیں ہیں ،جو ہمیں عظمت پروردگار کا درس دیتی ہیں،کیونکہ یہ کتابیں کائنات کی مخلوقات کے دلکش نظام سے پردہ اٹھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خالق کائنات کس قدر عالم وقادر ہے۔

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز
ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:
جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔
مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :
۱۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و....کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔
۲۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ: 
”مخ“(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔
اگر کسی جانور کا ”مخ“الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا ”مخ“نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔
کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!
حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔
اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔
اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟ 
انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(ذاریات/۳۱)
”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟“



خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ

خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ


ب۔بیرونی راستہ
ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پر
گا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:
۱۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔
ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔
۲۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔
۳۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔
۴۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ
یہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد“کی دلیل ہے۔
کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔
وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔
اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔
بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ ”احتمالات کے حساب“سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان“یا کتاب ”در جستجو خدا“کا مطالعہ فر مائیں)
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورہ فصلت/۵۳)
”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔“


ایک سچاواقعہ

 ایک سچاواقعہ


ہم نے بیان کیا کہ زبان سے خدا کا انکار کر نے والے بھی اپنی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کا ایماب رکھتے ہیں۔
بیشک کامیاں بیاں ۔خاص کر کم ظرف لوگوں کے لئے۔غرور پیدا کرتی ہیں اور یہی غرور ،فراموشی کا سبب بنتا ہے ،یہاں تک کہ کبھی انسان اپنی فطرت کو بھی بھول جاتا ہے ۔لیکن جب حوادث کے طوفان اس کی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں اور مشکلات کی تندو تیز آندھیاں ہر طرف سے اس پر حملے کرتی ہیں ،تو اس کی آنکھوں کے سامنے سے غرور و تکبر کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور توحید و معرفت خدا کی فطرت نمایاں ہو جاتی ہے۔
تاریخ بشر اس قسم کے افراد کے بہت سے نمو نے پیش کرتی ہے ،مندرجہ ذیل واقعہ ان میں سے ایک ہے:
ایک شخص اپنے زمانے کا مقتدر اور قوی وزیر تھا ،اکثر عہدوں کو اپنے قبضہ میں لے چکا تھا ،کوئی اس کی مخالفت کی جرئت نہیں کرتا تھا ۔ایک دن یہ وزیر ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر دینی علماء بیٹھے تھے ۔اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ کب تک کہتے رہو گے کہ کائنات میں کوئی خدا ہے ،میں اس کی نفی میں ہزار دلیلیں پیش کرسکتا ہوں۔
اس نے اس جملہ کو ایک خاص غرور وتکبر کے ساتھ ادا کیا ۔مجلس میں موجود علماء چونکہ جانتے تھے کہ وہ اہل منطق واستلال نہیں ہے اور اقتدار نے اسے اس قدر مغرور کر دیا ہے کہ کوئی حق بات اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے،اس لئے انہوں نے بے اعتنائی کے ساتھ ایک با معنی اور حقارت آمیز خاموشی اختیار کی۔
یہ واقعہ گزر گیا ،ایک مدت کے بعد وزیر پر الزام لگا یا گیا اور وقت کی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیجدیا۔
ان علماء میں سے ایک عالم جو اس دن اس مجلس میں موجود تھا ،اس نے سوچا کہ اس شخص کی بیداری کا وقت آگیا ہے ،اب جبکہ اس کا غرور ٹھنڈا ہو چکا ہے اور خود پرستی کے پر دے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ہیں اور حق کو قبول کر نے کی حس اس میں پیدا ہو گئی ہے اگر اب اس سے رابطہ قائم کیا جائے اور اس کی نصیحت کی جائے تو سود مند ہو گی ۔اس عالم دین نے اس شخص سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور اس سے ملاقات کر نے کے لئے جیل گیا ۔جوں ہی وہ اس شخص کے نزدیک پہنچا تو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے اسے ایک کمرہ میں اکیلا پایا ۔وہ ٹہلتے اور سوچتے ہو ئے کچھ اشعار گنگنا رہا تھا ،عالم دین نے غور سے سنا تو دیکھا وہ یہ معروف اشعار پڑھ رہا تھا:

ما ہمہ شیران ولی شیر علم حملہ مان از باد باشد دم بدم!
حملہ مان پیدا وناپیداست باد جان فدای آن کہ ناپیداست باد! 
یعنی ہماری مثال ان شیروں کے مانند ہے جو جھنڈوں پر نقش کئے جاتے ہیں،جب ہوا چلتی ہے تو وہ حر کت میں آتے ہیں گویا وہ حملہ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہیں بلکہ یہ ہوا کا چلنا ہے جو اسے قدرت بخشتا ہے ،ہم بھی جس قدر طاقتور ہو جائیں یہ طاقت ہماری اپنی نہیں ہے ۔جس خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے،وہ جب چاہے ہم سے واپس لے لے۔
مذکورہ عالم دین نے دیکھا کہ ان حالات میں نہ صرف یہ خدا کا منکر نہیں ہے بلکہ ایک شدید خداشناس بن گیا ہے ۔اس سے حال واحوال پوچھنے کے بعد کہا:یاد ہے ایک دن تم نے کہاتھا :خدا کی نفی میں ہزار دلائل پیش کر سکتا ہوں میںاس و قت اس لئے آیاہوں کہ تمھارے ہزار دلائل کا ایک جواب دوں :خدا وند متعال وہ ہے جس نے تم سے اس عظیم اقتدار کو اس آسانی کے ساتھ چھین لیا، اس نے اپناسر نیچا کر لیا اور شر مندہ ہو گیا اور کو ئی جواب نہیں دیا کیو نکہ اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا اور وہ اپنی روح کے اندر خدا کے نور کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
قرآن مجید فرعون کے بارے میں فر ماتا ہے:
(سورئہ یونس/۹۰)
”یہاں تک کہ غر قابی نے اسے (فرعون کو)پکڑ لیا تو اس نے آوازدی کہ میں اس خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں“

ایک اہم سوال کا جواب

ایک اہم سوال کا جواب


سوال

گزشتہ سبق میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ہم توحید اور خدا پرستی کی آواز کو اپنی روح کے اندر سے سنتے ہیں ،خاص کر مشکلات اور مصیبتوں کے وقت یہ آواز قوی تر ہو جاتی ہے اور ہم بے ساختہ طور پر خدا کو یاد کر کے اس کی لامحدود قدرت اور لطف و محبت سے مدد مانگتے ہیں۔
یہاں پر ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ یہ اند رونی آواز،جسے ہم فطرت کی آواز کہتے ہیں ،ان تبلیغات کا نتیجہ ہو جو معاشرہ کے ماحول ،مکتب و مدرسہ اور ماں باپ سے ہم سنتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک قسم کی عادت بن گئی ہے۔

جواب
اس اعتراض کا جواب ایک مختصر سے مقدمہ کے ذریعہ واضح ہو جاتا ہے۔
عادتیں اور رسم و رواج ،متغیّر اور ناپائیدار چیزیں ہیں ۔یعنی ہم کسی عادت اور رسم ورواج کو پیدا نہیں کرسکتے ہیں جو پوری تاریخ بشر کے دوران تمام اقوام میں یکساں صورت میں باقی رہے ہوں۔جو مسائل آج عادت اور رسم ورواج کے طور پر رونما ہوتے ہیں،ممکن ہے کل بدل جائیں ۔اسی وجہ سے ممکن ہے ایک قوم کے رسم ورواج اور عادات دوسری قوموں میں نہ پائے جائیں۔
اس لئے اگر ہم مشاہدہ کریں کہ ایک چیز تمام قوموں اور ملتوں کے در میان ہر زمان ومکان میں بلا استثنا ء موجودہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی ایک فطری بنیاد ہے جوانسان کی روح و جان کی ساخت اور بناوٹ میں قرار پائی ہے۔
مثال کے طور پر ایک ماں کی اپنے فرزند کی نسبت محبت کو کسی تلقین،تبلیغ عادت ورسم ورواج کا نتیجہ قطعاًنہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہم کسی قوم وملت اور کسی زمان و مکان میں نہیں پاتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتی ہو۔
البتہ ممکن ہے ایک ماں نفسیاتی بیماری کی وجہ سے اپنے فرزند کو نابود کر دے یا کوئی باپ جاہلیت کے زمانہ میں غلط اور خرافی تفکر کی وجہ سے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ،لیکن یہ انتہائی شاذو نادر اور استثنائی مواقع ہیں،جوجلدی ہی ختم ہو کر اپنی اصلی حالت(یعنی فرزند سے محبت)پر لوٹ آتے ہیں۔
مذکورہ تمہید کے پیش نظر ہم آج کے اور ماضی کے انسانوں کی خدا پرستی کے مسئلہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
(چونکہ یہ سبق قدرے پیچیدہ ہے اس لئے اس پر زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے)
۱۔عمر انیات کے ماہرین اور بڑے بڑے مورخین کی گواہی کے مطابق ہم کسی ایسے زمانے کو نہیں پاتے ہیں جس میں مذہب اور مذہبی ایمان لوگوں میںموجود نہ رہاہو بلکہ ہر عصراور ہر زمانے میں دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب موجود تھا اور یہ بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا پرستی کا سر چشمہ انسان کی روح وفطرت کی گہرائیوں میں مو جود ہے نہ یہ کہ عادات،رسم و رواج اور تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہے ۔اس لئے کہ اگر یہ عادات ،رسم ورواج اور تعلیم وتر بیت کا نتیجہ ہو تا تو اس صورت میں اسے عام اور لافانی نہیں ہو نا چاہئے تھا ۔
یہاں تک کہ ایسے آثار و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ماقبل تاریخ میں زندگی بسر کر نے والے لوگ بھی ایک قسم کے مذہب کے قائل تھے (ما قبل تاریخ کا زمانہ اس زمانہ کو کہتے ہیں کہ ابھی لکھائی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان اپنی یاد گار کے طور پر تحریر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ چونکہ ابتدائی لوگ خدا کو ایک مافوق طبیعی وجود کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے تھے اس لئے اسے مادی مخلوقت کے در میان تلاش کرتے تھے اور اپنے لئے مادی مخلوقات سے بت بناتے تھے ۔لیکن انسان نے عقل و فکر کی تر قی کے ساتھ رفتہ رفتہ حق کو پہچان لیا اور مادی مخلوقات کے بنائے ہو ئے بتوں کو چھوڑ کر طبیعی کائنات کے ماوراء خدا کی لا محدود قدرت سے آگاہ ہوا۔
۲۔بعض ماہرین نفسیات نے صراحتاًکہاہے کہ انسان کی روح کے چارپہلو یا چار اصلی حس پائے جاتے ہیں:
۱۔”دانائی کی حس“: یہ حس انسان کوعلم و دانش حاصل کر نے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی روح کو علم حاصل کر نے کا شوق دلاتی ہے ،خواہ یہ علم اس کے لئے مادی فائدہ رکھتا ہو یانہ ہو۔
ب۔”بھلائی کی حس“یہ حس عالم بشریت میں اخلاقی اور انسانی مسائل کا سر چشمہ ہے۔
ج۔”زیبائی کی حس“:یہ حس،حقیقی معنی میں شعر،ادبیات اور فنّ وہنر کا سر چشمہ ہے۔
د۔”مذہبی حس“:یہ حس،انسان کو معرفت خدا اور اس کے فر مان کی اطاعت کر نے کی دعوت دیتی ہے ۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی حس انسانی روح کی ایک بنیادی اور اصلی حس ہے ۔یعنی یہ حس نہ کبھی اس سے جدا تھی اور نہ کبھی جدا ہو گی۔
۳۔آئندہ بحثوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اکثر مادہ پرست اور منکرین خدا نے بھی ایک طرح سے خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے،اگر چہ وہ لوگ خدا کے نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اوراسے فطرت یا دوسرے نام سے پکارتے ہیں ،لیکن اس فطرت کے لئے ایسی صفتوں کے قائل ہوتے ہیں کہ جو خدا کی صفات کے مشابہ ہیں۔
مثلاًکہتے ہیں :فطرت نے اگر انسان کو دو گردے دئے ہیں،یہ اس لئے ہے کہ اسے معلوم تھا،ممکن ہے ان دو گردوں میں سے ایک خراب ہو جائے تو دوسرا گردہ اس کی زندگی کو جاری رکھ سکے ،وہ ایسی ہی تعبیرات بیان کرتے ہیں ۔کیا یہ بات ایک بے شعور فطرت کے ساتھ متناسب ہے ؟یا یہ کہ یہ ایک ایسے خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے جو لامحدود علم وقدرت کا مالک ہے،اگر چہ انہوں نے اس کا نام فطرت رکھا ہے۔
بحث کا نتیجہ:اس بحث میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ،اس سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں :
خدا کی محبت ہماری روح میں ہمیشہ موجود تھی اور ہو گی۔
خدا کا ایمان ایک ایسا ابدی شعلہ ہے جو ہمارے قلب و روح کو گرم کر تا ہے۔
خدا کی معرفت حاصل کر نے کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں کہ طولانی راستے طے کریں،ہمیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں نظر ڈالنی چاہئے،خدا پر ایمان کو ہم وہاں پر پائیں گے۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورئہ ق/۱۶)
”اور ہم اس سے رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“