Sunday 19 January 2014

نظام خلقت کے چند نمونے

نظام خلقت کے چند نمونے


پوری کائنات میں ”نظم“،”مقصد“اور”نقشہ“کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔اب توجہ فر ما یئے کہ ہم ان کے چند نمونوں کو بیان کرتے ہیں:
ہم نے یہاں پر آپ کے لئے چند چھوٹے بڑے نمونے اکٹھا کئے ہیں۔
خوشبختی سے آج طبیعی علوم میں ترقی کے نتیجہ میں عالم طبیعت میں انسان،حیوان،پودوں،خلیوں اور ایٹم کی حیرت انگیز عمارت کی باریک بینیوں اور ستاروں کے حیرت انگیز نظام نے ہم پر معرفت خدا کے دروازے کھول دئے ہیں۔اس لئے جر اٴت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ طبیعی علوم کی تمام کتابیں تو حید اور معرفت خدا کی کتابیں ہیں ،جو ہمیں عظمت پروردگار کا درس دیتی ہیں،کیونکہ یہ کتابیں کائنات کی مخلوقات کے دلکش نظام سے پردہ اٹھاتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خالق کائنات کس قدر عالم وقادر ہے۔

ملک بدن کی حکمرانی کا مرکز
ہماری کھوپڑی کے اندر خاکی رنگ کا ایک مادہ ہے ،جسے ہم مغز کہتے ہیں ۔یہ مغزہمارے بدن کے اہم ترین اور دقیق ترین حصہ کو تشکیل دیتا ہے ،کیو نکہ اس کاکام بدن کے تمام قوا کو فر مان جاری کرنا اور ہمارے جسم کے تمام اعضاء کو کنٹرول کرنا ہے۔اس عظیم مرکز کی اہمیت کو بیان کر نے کے لئے مناسب ہے پہلے آپ کے لئے یہ خبر بیان کریں:
جرائد میں یہ خبر نقل کی گئی تھی کہ ایک شیرازی طالب علم کو خوزستان میں ایک ٹریفک حادثہ کے نتیجہ میں مغز پر چوٹ لگ گئی تھی ،بظاہروہ سالم نظر آتا تھا ۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی تمام یاد داشتیں کھو بیٹھا تھا۔اس کا دماغ بخوبی کام کر تا تھا ۔مطالب کو سمجھتا تھا،لیکن اگر اپنے ماں یا باپ کو دیکھتا تو انھیں نہیں پہچانتا تھا۔جب اس سے کہتے تھے کہ یہ تمھاری ماں ہے ،وہ تعجب کرتا تھا ۔اسے اپنے گھر شیراز لے جایا گیا اور اس کی دستکاری۔۔جو اس کے کمرہ کی دیوار پر نصب تھی ۔۔اسے دکھائی گئی تو وہ تعجب سے ان پر نگاہ کر نے کے بعد کہتاتھا کہ میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
معلوم ہوا کہ اس مغزی چوٹ کے نتیجہ میں اس کے دماغ کی خلیوں کا ایک حصہ، جو حقیقت میں فکر اور حافظہ کے مخزن کے در میان رابطہ کے تار کا رول ادا کرتا ہے ،بیکار ہوا ہے اور جیسے بجلی کا فیوزاڑ جانے کے نتیجہ میں بجلی منقطع ہو کر تاریکی پھیل جاتی ہے ،اسی طرح اس کی سابقہ یادوں کا ایک بڑا حصہ فرا موشی کی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
شاید اس کے مغز کا بیکار شدہ حصہ ایک پن کی نوک سے زیادہ نہیں ہوگا ،لیکن اس نے اس کی زندگی پر کس قدر اثر ڈالا ہے !اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے مغز کا سسٹم کس قدر پیچیدہ ہے اور اہم ہے۔
مغز و اعصاب کا سلسلہ دواہم حصوں سے تشکیل پاتا ہے :
۱۔ارادی اعصاب :ہمارے بدن کے تمام اختیاری حرکات،جیسے:راہ چلنے دیکھنے ،باتیں کر نے و....کا سرچشمہ اعصاب کا یہی حصہ ہے ۔
۲۔غیر ارادی اعصاب:اعصاب کا یہ حصہ ،دل کی دھڑکن،معدہ وغیرہ جیسے اعضاء کا کنٹرول کرتا ہے۔مغز کے اس حصہ کا ایک ذرہ بیکار ہو نے کے نتیجہ میں ممکن ہے انسان کا قلب یاکوئی دوسرا عضو مختل ہو کر رہ جائے۔

دماغ کا ایک عجیب وغریب حصہ: 
”مخ“(بھیجا)دماغ کا وہ چھوٹا حصہ ہے جو دماغ کے دوحصوں کے در میان واقع ہے ،مغز کا یہ بالکل چھوٹاحصہ ہوش ،ارادہ اور شعور کا مرکز ہے۔یہ مغز کا ایک اہم ترین حصہ ہے بہت سے جذباتی رد عمل ،جیسے غضب اور ترس وغیرہ اسی سے مربوط ہیں ۔
اگر کسی جانور کا ”مخ“الگ کر دیا جائے ،لیکن اس کے باقی اعصاب اپنی جگہ پر صحیح وسالم ہوں تو وہ جانور زندہ رہتا ہے لیکن فہم وشعور کو بالکل ہی کھو دیتا ہے۔ایک کبو تر کا ”مخ“نکالا گیا ۔وہ ایک مدت تک زندہ رہا۔لیکن جب اس کے سامنے دانہ ڈالتے تھے وہ اسے تشخیص نہیں دے سکتا تھا اور بھوکا ہو نے کے باوجود اسے نہیں کھاتا تھا ۔اگر اسے اڑاتے تھے ،تو وہ پرواز ہی کرتا رہتا تھا ،یہاں تک کہ کسی چیز سے ٹکراکرگر جاتا تھا۔

دماغ کا ایک اور حیرت انگیز حصہ،”حافظہ“ ہے۔
کیا آپ نے اس پر غور کیا ہے کہ ہماراقوئہ حافظہ کس قدر حیرت انگیز ہے؟اگر ایک گھنٹہ کے لئے ہم سے حافظ چھین لیا جائے تو ہم کس مصیبت سے دو چار ہو جائیں گے؟!
حافظ کا مرکز ،جو ہماے دماغ کا ایک چھوٹا حصہ ہے ،ہماری پوری عمر کی یادوںکو تمام خصوصیات کے ساتھ ریکارڈکرتا ہے ۔جس شخص نے بھی ہم سے رابطہ قائم کیا ہو،اس کی تمام خصوصیات جیسے،قد،شکل وصورت،رنگ ،لباس،اخلاق اور جذبات کو ریکارڈ کر کے محفوظ رکھتا ہے اور ہر ایک کے لئے ایک الگ فائل تشکیل دیتا ہے۔لہذا جوں ہی ہم اس شخص سے روبرو ہو تے ہیں ،ہماری فکر تمام فائلوں میں سے اس شخص کی فائل کو نکال کر فوری طور پر اس کا مطالعہ کرتی ہے ۔اس کے بعد ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اس کے مقابلہ میں کون سا رد عمل ظاہر کریں۔
اگر وہ دوست ہے تو اس کا احترام کریں اور اگر دشمن ہے تو اظہار نفرت کریں۔ لیکن یہ تمام کام اس قدر سرعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں کہ وقت کے ذراسا بھی فاصلہ کا احساس تک نہیں ہو تا۔
اس مسئلہ پر تعجب اس وقت اور زیادہ ظاہر ہو تا ہے جب ہم اپنے حافظ میں موجود چیزوں کو تصویر کے ذریعہ کاغذپر تر سیم کر نا چاہیں یا انھیں کیسٹ میں ضبط کر نا چاہیں تو ہم بیشک کاغذ اور کیسٹ کی بڑی تعداد کو مصرف میں لاتے ہیں جو ایک انبار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔عجیب تر یہ ہے کہ ان کیسٹوں اور کاغذات میں سے ایک کو باہر نکالنے کے لئے ہمیں بہت سے مامورین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ،جبکہ ہمارا حافظہ ان تمام کاموں کو آسانی کے ساتھ فی الفور انجام دیتا ہے۔

بے شعورطبیعت کیسے باشعورچیزوں کی تخلیق کرسکتی ہے؟ 
انسان دماغ کے عجائبات کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان میں سے بعض کاکالجوں اور یونیورسٹیوںکی کتابوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔کیا اس پر باور اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ غیر معمولی ،انوکھا،دقیق،پیچیدہ اورپر اسرار دماغ کسی بے شعور طبیعت کی تخلیق ہوگی؟اس سے بڑھ کر کوئی بات تعجب انگیز نہیں ہوسکتی ہے کہ ہم بے عقل طبیعت کو عقل کا خالق جانیں!
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(ذاریات/۳۱)
”خود تمھارے اندر بھی (خدا کی عظمت اور قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں)کیاتم نہیں دیکھ رہے ہو؟“



خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ

خدا کی معرفت کا دوسرا راستہ


ب۔بیرونی راستہ
ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں،اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ کائنات درہم برہم نہیں ہے بلکہ تمام موجودات ایک معیّن راہ پر
گا مزن ہیں اور کائنات کا نظم ایک بڑی فوج کے مانند ہے جو مختلف اور منظم یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک معین مقصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
مندر جہ ذیل نکات اس سلسلہ میں ہر شبہہ کو دور کرسکتے ہیں:
۱۔ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کے لئے ضروری ہے کچھ خاص قوا نین اور حالات ایک دوسرے سے جڑُے ہوئے پائے جائیں ۔مثلاً ایک درخت کے وجود میں آنے کے لئے:زمین،مناسب آب وہوا اور ایک معیّن دھوپ اور گر می کی ضرورت ہو تی ہے تا کہ بیج کو ڈالا جائے اور وہ اچھی طرح سے غذا حاصل کرے ،تنفس کرے ،سبز ہو جائے اور نشو ونما پائے ۔
ان حالات کے بغیر اس کی نشو ونما ممکن نہیں ہے ،ان حالات کو منتخب کر نے اور ان مقد مات کو فراہم کر نے کے لئے عقل اور علم ودانش کی ضرورت ہے۔
۲۔ہر مخلوق کا اپنا ایک خاص اثر ہو تا ہے ،پانی اور آگ میں سے ہر ایک کا اپنا خاص اثر ہے ،جو ان سے کبھی جدا نہیں ہو تا ہے بلکہ ہمیشہ ایک ثابت اور پائدار قانون کی پیروی کر تا ہے ۔
۳۔زندہ مخلوقات کے تمام اعضاء آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کر تے ہیں مثال کے طور پر یہی انسان کا بدن جو بذات خود ایک عالم ہے ،عمل کے وقت اس کے تمام اعضاء شعوری اور لا شعوری طور پر ایک خاص ہماہنگی سے کام کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کسی خطرہ سے دوچار ہو جائے تو تمام اعضاء دفاع کے لئے متحد ہو جاتے ہیں ۔یہ نزدیک رابطہ اور تعاون،کائنات کے نظم کی ایک اور علامت ہے ۔
۴۔کائنات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضاء وجسم بلکہ کائنات کی تمام مخلوقات بھی آپس میں ایک خاص ہماہنگی رکھتی ہیں۔ مثلاً زندہ مخلوقات کی نشو ونماکے لئے سورج چمکتا ہے ،بادل برستا ہے ،ہوا چلتی ہے ،زمین اور زمین کے منابع اس کی مدد کرتے ہیں ۔یہ کائنات میں ایک معین نظام کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔

”نظم وضبط“اور ”عقل“کا رابطہ
یہ حقیقت ہر انسان کے ضمیر پر واضح ہے کہ جہاں کہیں بھی نظم پایا جاتا ہو وہ”عقل،فکر،نقشہ اور مقصد“کی دلیل ہے۔
کیونکہ انسان جہاں کہیں بھی ایک ثابت نظم وضبط اور قوانین کا مشاہدہ کرے وہ جانتا ہے کہ اس کے ساتھ ہی علم وقدرت کے ایک مبدا کی بھی تلاش اور جستجو کر نی چاہئے اور اپنے ضمیر کے اس ادراک میں کسی استدلال کی ضرورت کا احساس بھی نہیں کرتا ہے۔
وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایک اندھا اوران پڑھ شخص ہر گز ایک ٹائپ مشین سے ایک اچھا مضمون یاایک اجتماعی و تنقیدی مقالہ نہیں لکھ سکتا ہے ،اور ایک دوسال کا بچہ کاغذ پر نامنظم صورت میں قلم چلاکر ہر گز ایک اچھی اور گراں قیمت نقا شی نہیں کرسکتا ہے۔ بلکہ اگر ہم ایک اچھا مضمون یا گراں قیمت مقالہ دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور عقل و شعور والے کسی شخص نے اسے لکھا ہے ،یااگر کسی نمائش گاہ میں نقاشی کا ایک اچھا نمو نہ دیکھتے ہیں تو اس بات میں شک وشبہہ نہیں کرتے ہیں کہ اسے ایک ہنر مند نقاش نے بنایا ہے ،اگر چہ ہم نے کبھی اس ہنر مند نقاش کو نہ دیکھا ہو۔
اس لئے جہاں کہیں بھی نظم وضبط پا یا جائے اس کے ساتھ عقل و ہوش ضرور ہو گا اور یہ نظم جس قدر بڑا،دقیق تر اور دلچسپ ہو گا ،جس علم و عقل نے اسے خلق کیا ہے وہ بھی اسی قدر بڑا ہو گا ۔
بعض اوقات اس بات کو ثابت کر نے کے لئے کہ ہر منظم چیز کے لئے عقل ودانش کے سر چشمہ کی ضرورت ہے ،ریاضیات عالی میں ذکر شدہ ”احتمالات کے حساب“سے مدد لی جاتی ہے اور اس طریقہ سے ثابت کرتے ہیں کہ مثلاًایک ان پڑھ شخص اگر ٹائپ مشین کے ذریعہ اتفاقی طور پر مشین کے بٹن دبا نے سے ایک مقالہ یا چند اشعار کو لکھنا چاہے تو”احتمالات کے حساب “کے مطابق اس میں اربوں سال لگ جائیں گے کہ حتی کرئہ زمین کی پوری عمر بھی اس کے لئے کافی نہیں ہوگی ۔(اس کی مزید وضاحت کے لئے کتاب”آفرید گار جہان“یا کتاب ”در جستجو خدا“کا مطالعہ فر مائیں)
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورہ فصلت/۵۳)
”ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تا کہ ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ وہ برحق ہے اور کیا تمھارے پرور دگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے۔کہ وہ ہرشے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔“


ایک سچاواقعہ

 ایک سچاواقعہ


ہم نے بیان کیا کہ زبان سے خدا کا انکار کر نے والے بھی اپنی روح کی گہرائیوں میں خدا کے وجود کا ایماب رکھتے ہیں۔
بیشک کامیاں بیاں ۔خاص کر کم ظرف لوگوں کے لئے۔غرور پیدا کرتی ہیں اور یہی غرور ،فراموشی کا سبب بنتا ہے ،یہاں تک کہ کبھی انسان اپنی فطرت کو بھی بھول جاتا ہے ۔لیکن جب حوادث کے طوفان اس کی زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں اور مشکلات کی تندو تیز آندھیاں ہر طرف سے اس پر حملے کرتی ہیں ،تو اس کی آنکھوں کے سامنے سے غرور و تکبر کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور توحید و معرفت خدا کی فطرت نمایاں ہو جاتی ہے۔
تاریخ بشر اس قسم کے افراد کے بہت سے نمو نے پیش کرتی ہے ،مندرجہ ذیل واقعہ ان میں سے ایک ہے:
ایک شخص اپنے زمانے کا مقتدر اور قوی وزیر تھا ،اکثر عہدوں کو اپنے قبضہ میں لے چکا تھا ،کوئی اس کی مخالفت کی جرئت نہیں کرتا تھا ۔ایک دن یہ وزیر ایک ایسی مجلس میں داخل ہوا جہاں پر دینی علماء بیٹھے تھے ۔اس نے ان سے مخاطب ہو کر کہا تم لوگ کب تک کہتے رہو گے کہ کائنات میں کوئی خدا ہے ،میں اس کی نفی میں ہزار دلیلیں پیش کرسکتا ہوں۔
اس نے اس جملہ کو ایک خاص غرور وتکبر کے ساتھ ادا کیا ۔مجلس میں موجود علماء چونکہ جانتے تھے کہ وہ اہل منطق واستلال نہیں ہے اور اقتدار نے اسے اس قدر مغرور کر دیا ہے کہ کوئی حق بات اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ہے،اس لئے انہوں نے بے اعتنائی کے ساتھ ایک با معنی اور حقارت آمیز خاموشی اختیار کی۔
یہ واقعہ گزر گیا ،ایک مدت کے بعد وزیر پر الزام لگا یا گیا اور وقت کی حکومت نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیجدیا۔
ان علماء میں سے ایک عالم جو اس دن اس مجلس میں موجود تھا ،اس نے سوچا کہ اس شخص کی بیداری کا وقت آگیا ہے ،اب جبکہ اس کا غرور ٹھنڈا ہو چکا ہے اور خود پرستی کے پر دے اس کی آنکھوں سے ہٹ گئے ہیں اور حق کو قبول کر نے کی حس اس میں پیدا ہو گئی ہے اگر اب اس سے رابطہ قائم کیا جائے اور اس کی نصیحت کی جائے تو سود مند ہو گی ۔اس عالم دین نے اس شخص سے ملاقات کی اجازت حاصل کی اور اس سے ملاقات کر نے کے لئے جیل گیا ۔جوں ہی وہ اس شخص کے نزدیک پہنچا تو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے اسے ایک کمرہ میں اکیلا پایا ۔وہ ٹہلتے اور سوچتے ہو ئے کچھ اشعار گنگنا رہا تھا ،عالم دین نے غور سے سنا تو دیکھا وہ یہ معروف اشعار پڑھ رہا تھا:

ما ہمہ شیران ولی شیر علم حملہ مان از باد باشد دم بدم!
حملہ مان پیدا وناپیداست باد جان فدای آن کہ ناپیداست باد! 
یعنی ہماری مثال ان شیروں کے مانند ہے جو جھنڈوں پر نقش کئے جاتے ہیں،جب ہوا چلتی ہے تو وہ حر کت میں آتے ہیں گویا وہ حملہ کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہیں بلکہ یہ ہوا کا چلنا ہے جو اسے قدرت بخشتا ہے ،ہم بھی جس قدر طاقتور ہو جائیں یہ طاقت ہماری اپنی نہیں ہے ۔جس خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے،وہ جب چاہے ہم سے واپس لے لے۔
مذکورہ عالم دین نے دیکھا کہ ان حالات میں نہ صرف یہ خدا کا منکر نہیں ہے بلکہ ایک شدید خداشناس بن گیا ہے ۔اس سے حال واحوال پوچھنے کے بعد کہا:یاد ہے ایک دن تم نے کہاتھا :خدا کی نفی میں ہزار دلائل پیش کر سکتا ہوں میںاس و قت اس لئے آیاہوں کہ تمھارے ہزار دلائل کا ایک جواب دوں :خدا وند متعال وہ ہے جس نے تم سے اس عظیم اقتدار کو اس آسانی کے ساتھ چھین لیا، اس نے اپناسر نیچا کر لیا اور شر مندہ ہو گیا اور کو ئی جواب نہیں دیا کیو نکہ اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تھا اور وہ اپنی روح کے اندر خدا کے نور کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
قرآن مجید فرعون کے بارے میں فر ماتا ہے:
(سورئہ یونس/۹۰)
”یہاں تک کہ غر قابی نے اسے (فرعون کو)پکڑ لیا تو اس نے آوازدی کہ میں اس خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں“

ایک اہم سوال کا جواب

ایک اہم سوال کا جواب


سوال

گزشتہ سبق میں ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ہم توحید اور خدا پرستی کی آواز کو اپنی روح کے اندر سے سنتے ہیں ،خاص کر مشکلات اور مصیبتوں کے وقت یہ آواز قوی تر ہو جاتی ہے اور ہم بے ساختہ طور پر خدا کو یاد کر کے اس کی لامحدود قدرت اور لطف و محبت سے مدد مانگتے ہیں۔
یہاں پر ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ یہ اند رونی آواز،جسے ہم فطرت کی آواز کہتے ہیں ،ان تبلیغات کا نتیجہ ہو جو معاشرہ کے ماحول ،مکتب و مدرسہ اور ماں باپ سے ہم سنتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک قسم کی عادت بن گئی ہے۔

جواب
اس اعتراض کا جواب ایک مختصر سے مقدمہ کے ذریعہ واضح ہو جاتا ہے۔
عادتیں اور رسم و رواج ،متغیّر اور ناپائیدار چیزیں ہیں ۔یعنی ہم کسی عادت اور رسم ورواج کو پیدا نہیں کرسکتے ہیں جو پوری تاریخ بشر کے دوران تمام اقوام میں یکساں صورت میں باقی رہے ہوں۔جو مسائل آج عادت اور رسم ورواج کے طور پر رونما ہوتے ہیں،ممکن ہے کل بدل جائیں ۔اسی وجہ سے ممکن ہے ایک قوم کے رسم ورواج اور عادات دوسری قوموں میں نہ پائے جائیں۔
اس لئے اگر ہم مشاہدہ کریں کہ ایک چیز تمام قوموں اور ملتوں کے در میان ہر زمان ومکان میں بلا استثنا ء موجودہے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کی ایک فطری بنیاد ہے جوانسان کی روح و جان کی ساخت اور بناوٹ میں قرار پائی ہے۔
مثال کے طور پر ایک ماں کی اپنے فرزند کی نسبت محبت کو کسی تلقین،تبلیغ عادت ورسم ورواج کا نتیجہ قطعاًنہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ ہم کسی قوم وملت اور کسی زمان و مکان میں نہیں پاتے ہیں کہ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتی ہو۔
البتہ ممکن ہے ایک ماں نفسیاتی بیماری کی وجہ سے اپنے فرزند کو نابود کر دے یا کوئی باپ جاہلیت کے زمانہ میں غلط اور خرافی تفکر کی وجہ سے اپنی بیٹی کو زندہ دفن کردے ،لیکن یہ انتہائی شاذو نادر اور استثنائی مواقع ہیں،جوجلدی ہی ختم ہو کر اپنی اصلی حالت(یعنی فرزند سے محبت)پر لوٹ آتے ہیں۔
مذکورہ تمہید کے پیش نظر ہم آج کے اور ماضی کے انسانوں کی خدا پرستی کے مسئلہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
(چونکہ یہ سبق قدرے پیچیدہ ہے اس لئے اس پر زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے)
۱۔عمر انیات کے ماہرین اور بڑے بڑے مورخین کی گواہی کے مطابق ہم کسی ایسے زمانے کو نہیں پاتے ہیں جس میں مذہب اور مذہبی ایمان لوگوں میںموجود نہ رہاہو بلکہ ہر عصراور ہر زمانے میں دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں مذہب موجود تھا اور یہ بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا پرستی کا سر چشمہ انسان کی روح وفطرت کی گہرائیوں میں مو جود ہے نہ یہ کہ عادات،رسم و رواج اور تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہے ۔اس لئے کہ اگر یہ عادات ،رسم ورواج اور تعلیم وتر بیت کا نتیجہ ہو تا تو اس صورت میں اسے عام اور لافانی نہیں ہو نا چاہئے تھا ۔
یہاں تک کہ ایسے آثار و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ماقبل تاریخ میں زندگی بسر کر نے والے لوگ بھی ایک قسم کے مذہب کے قائل تھے (ما قبل تاریخ کا زمانہ اس زمانہ کو کہتے ہیں کہ ابھی لکھائی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان اپنی یاد گار کے طور پر تحریر نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ چونکہ ابتدائی لوگ خدا کو ایک مافوق طبیعی وجود کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے تھے اس لئے اسے مادی مخلوقت کے در میان تلاش کرتے تھے اور اپنے لئے مادی مخلوقات سے بت بناتے تھے ۔لیکن انسان نے عقل و فکر کی تر قی کے ساتھ رفتہ رفتہ حق کو پہچان لیا اور مادی مخلوقات کے بنائے ہو ئے بتوں کو چھوڑ کر طبیعی کائنات کے ماوراء خدا کی لا محدود قدرت سے آگاہ ہوا۔
۲۔بعض ماہرین نفسیات نے صراحتاًکہاہے کہ انسان کی روح کے چارپہلو یا چار اصلی حس پائے جاتے ہیں:
۱۔”دانائی کی حس“: یہ حس انسان کوعلم و دانش حاصل کر نے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی روح کو علم حاصل کر نے کا شوق دلاتی ہے ،خواہ یہ علم اس کے لئے مادی فائدہ رکھتا ہو یانہ ہو۔
ب۔”بھلائی کی حس“یہ حس عالم بشریت میں اخلاقی اور انسانی مسائل کا سر چشمہ ہے۔
ج۔”زیبائی کی حس“:یہ حس،حقیقی معنی میں شعر،ادبیات اور فنّ وہنر کا سر چشمہ ہے۔
د۔”مذہبی حس“:یہ حس،انسان کو معرفت خدا اور اس کے فر مان کی اطاعت کر نے کی دعوت دیتی ہے ۔اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی حس انسانی روح کی ایک بنیادی اور اصلی حس ہے ۔یعنی یہ حس نہ کبھی اس سے جدا تھی اور نہ کبھی جدا ہو گی۔
۳۔آئندہ بحثوں میں ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اکثر مادہ پرست اور منکرین خدا نے بھی ایک طرح سے خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے،اگر چہ وہ لوگ خدا کے نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اوراسے فطرت یا دوسرے نام سے پکارتے ہیں ،لیکن اس فطرت کے لئے ایسی صفتوں کے قائل ہوتے ہیں کہ جو خدا کی صفات کے مشابہ ہیں۔
مثلاًکہتے ہیں :فطرت نے اگر انسان کو دو گردے دئے ہیں،یہ اس لئے ہے کہ اسے معلوم تھا،ممکن ہے ان دو گردوں میں سے ایک خراب ہو جائے تو دوسرا گردہ اس کی زندگی کو جاری رکھ سکے ،وہ ایسی ہی تعبیرات بیان کرتے ہیں ۔کیا یہ بات ایک بے شعور فطرت کے ساتھ متناسب ہے ؟یا یہ کہ یہ ایک ایسے خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے جو لامحدود علم وقدرت کا مالک ہے،اگر چہ انہوں نے اس کا نام فطرت رکھا ہے۔
بحث کا نتیجہ:اس بحث میں جو کچھ ہم نے بیان کیا ،اس سے یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں :
خدا کی محبت ہماری روح میں ہمیشہ موجود تھی اور ہو گی۔
خدا کا ایمان ایک ایسا ابدی شعلہ ہے جو ہمارے قلب و روح کو گرم کر تا ہے۔
خدا کی معرفت حاصل کر نے کے لئے ہم مجبور نہیں ہیں کہ طولانی راستے طے کریں،ہمیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں نظر ڈالنی چاہئے،خدا پر ایمان کو ہم وہاں پر پائیں گے۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورئہ ق/۱۶)
”اور ہم اس سے رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“




خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے

خدا کی معرفت کے دواطمینان بخش راستے


۱۔خدا کی معرفت اور علوم کی ترقی
معرفت خدا کے بارے میں زمانہ قدیم سے آج تک بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور اس موضوع پر دانشوروں اور غیر دانشوروںمیں کافی بحث وگفتگو ہوتی رہی ہے۔
اس حقیقت کو پانے کے لئے ہر ایک نے ایک راستہ کا انتخاب کیا ہے۔لیکن تمام راستوں میں سے بہترین راستے جو ہمیں خالق کائنات تک جلدی پہنچاسکتے ہیں،دو راستے ہیں:
الف۔اندرونی راستہ(نزدیک ترین راستہ)
ب۔بیرونی راستہ(واضح ترین راستہ)
پہلے طریقہ میں ہم اپنے وجود کی گہرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ توحید کی آواز کو اپنی روح کے اندر سن لیں۔
دوسرے طریقہ میں ہم وسیع کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اورتمام مخلوقات کی پیشانی پر اور ہرذرّہ کے اندرخداوند متعال کی نشانیاں پاتے ہیں۔ان دو طریقوں میں سے ہر ایک کے بارے میں طویل بحثیں کی گئی ہیں ۔لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک مختصر بحث کے ذریعہ ان دو طریقوں کو ایک اجمالی تحقیق کے ساتھ بیان کریں۔

الف۔اندرونی راستہ 
مندرجہ ذیل چند موضوعات قابل غور ہیں:
۱۔دانشور کہتے ہیں:اگر کسی بھی قوم ونسل سے متعلق ایک انسان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے کسی خاص قسم کی تعلیم وتر بیت نہ دی جائے ،حتی خدا پرستی اور مادیت کی گفتگو سے بھی بے خبر رکھاجائے تب بھی وہ خود بخود ایک ایسی قوی طاقت کی طرف متوجہ ہو جاتاہے جومادی دنیا سے بالا تر ہے اور پوری کائنات پر حکمران ہے۔
وہ اپنے دل اورضمیرکی عمیق گہرائیوں میں ایک لطیف ،محبت آمیز،اور متقن و محکم آواز کا احساس کرتا ہے جو اسے علم وقدرت کے ایک عظیم مبدا کی طرف بلاتی ہے،جسے ہم خدا کہتے ہیں ۔
یہ بشرکی وہی پاک اور بے لاگ فطری کی آواز ہے۔
۲۔ممکن ہے مادی دنیا اور روز مرہ زندگی کاشور وغل اوراس کی چمک دمک اس کو اپنی طرف مشغول کرے اور وہ عارضی طور پر اس آواز کو سننے سے غافل ہو جائے ،لیکن جب وہ اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کے مقابلہ میں پاتا ہے ،جب خطرناک طبیعی حوادث اس پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے سیلاب،زلزلہ،طوفان اورایک نامناسب موسم کے سبب ہوائی جہاز میں رونما ہونے والے اضطرابی حالات سے دو چار ہو تا ہے ،اس وقت وہ تمام مادی وسائل سے مایوس ہو جاتا ہے اور اپنے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا ہے تو یہ آواز اس کی روح کے اندر ابھرتی ہے ،وہ احساس کرتا ہے کہ اس کے وجود کے اندر سے ایک طاقت اسے اپنی طرف بلا رہی ہے ،ایک ایسی طاقت جو تمام طاقتوں سے برتر ہے ،ایک پر اسرارطاقت جس کے سامنے تمام مشکلات سہل اور آسان ہیں۔
آپ بہت کم ایسے لوگوں کو پائیں گے جو اپنی زندگی کے مشکل ترین حوادث میں اس قسم کی حالت پیدا نہ کریں اور بے اختیار خدا کو یاد نہ کریں ۔یہی بات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کتنا اس کے نزدیک ہیں اور وہ کس قدر ہمارے قریب ہے،وہ ہماری روح و جان میں موجود ہے۔
البتہ فطری آوازہمیشہ انسان کی روح میںموجود ہے لیکن مذکورہ لحظات میں یہ آواز زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔
۳۔تاریخ ہمیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے صاحبان اقتدار جواپنے جاہ وجلال اور آرام و آسائش کے لمحات میں خدا کا نام تک لینے سے انکار کرتے تھے ،جب اپنی قدرت کی بنیادوں کو متزلزل ہوتے اور اپنی ہستی کے محلوں کو گرتے دیکھتے تھے تو اس عظیم مبداً(خدا) کی طرف متوجہ ہوتے تھے اورفطری آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے:جب فر وعون نے اپنے آپ کو پر تلاطم لہروں کی لپیٹ میں پایااور اس نے مشاہدہ کیا کہ جو پانی اس کے ملک کی آبادی اور زندگی کا سبب اور اس کی تمام مادی طاقت کا سر چشمہ تھا،اس وقت اس کے لئے موت کا حکم جاری کر رہاہے اور وہ چند چھوٹی لہروں کے مقابلہ میں بے بس ہو کر رہ گیا ہے اور ہر طرف سے اس پر نا امیدی چھائی ہوئی ہے ،تو اس نے فریاد بلند کی :”میں اس وقت اعتراف کرتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔“حقیقت میں یہ فر یاد اس کی فطرت اور روح کی گہرائیوں سے بلند ہوئی تھی نہ صرف فروعون بلکہ وہ تمام لوگ جو ایسے حالات سے دو چار ہوجاتے ہیں،اس آواز کو واضح طور پر سنتے ہیں۔
۴۔خود آپ بھی اگر اپنے دل کی گہرائیوں پر توجہ کریں گے توضرور تائید کریں گے کہ وہاں پر ایک نور چمکتا ہے جو تمھیں خدا کی طرف دعوت دیتا ہے ۔شاید زندگی میں آپ کو کئی بار ناقابل برداشت حوادث اور مشکلات سے دوچار ہو نا پڑا ہو اور تمام مادی وسائل ان مشکلات کو دور کر نے میں ناکام ہو گئے ہوں ،ان لمحات کے دوران آپ کے ذہن میںیہ حقیقت ضرور اجاگر ہوئی ہوگی کہ اس کائنات میں ایک بڑی اور قدرتمند طاقت موجود ہے جو اس مشکل کو آسانی کے ساتھ حل کر سکتی ہے۔
ان لمحات میں آپ کی امید پرور دگار کی عشق سے ممزوج ہوکرآپ کی روح وجان کو اپنی آغوش میں لیتی ہے اور یاس ونا امیدی کو آپ کے دل سے دور کر دیتی ہے ۔
جی ہاں!یہ نزدیک ترین راستہ ہے کہ ہر شخص اپنی روح کے اندر پرور دگار عالم اور خالق کائنات کو پاسکتا ہے۔

ایک سوال 
ممکن ہے آپ میں سے بعض افراد یہ سوال کریں کہ کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ہم ماحول اور اپنے والدین سے حاصل کی گئی تعلیمات کے زیر اثر حساس مواقع پر ایسا سوچتے ہیں ؟اور خدا کی بار گاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟
ہم اس سوال کے بارے میں آپ کو حق بجانب جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا ایک دلچسپ جواب ہے ،جسے ہم آئندہ سبق میں بیان کریں گے ۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورئہ عنکبوت/۶۵)
”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیںپھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچ دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں۔“


ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں

ہماری زندگی میں خدا کے وجودکی نشانیاں


فرض کیجئے کہ آپ کا ایک دوست سفر سے لوٹا ہے اور آپ کے لئے تحفہ کے طور پر ایک کتاب لایا ہے اور اس کتاب کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک بہترین کتاب ہے کیونکہ اس کا مصنف ایک غیر معمولی فطانت کا مالک،دانشور،آگاہ، ماہر اور اپنے فن میں ہر لحاظ سے انوکھا اور استاد ہے۔
آپ اس کتاب کا ہرگز سرسری مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ اس کے برعکس اس کے تمام جملوں حتی اس کے لفظ لفظ پر غور وخوض کریںگے اور اگر اس کے کسی جملہ کو نہ سمجھے تو گھنٹوں بلکہ شایدمسلسل کئی دنوں تک فرصت پانے پر اس کے بارے میں سعی و کوشش کریں گے تاکہ اس کا معنی ومفہوم آپ کے لئے واضح ہو جائے ،کیونکہ اس کا مصنف ایک عام انسان نہیں ہے بلکہ ایک ایسا عظیم دانشورہے جوسوچے سمجھے بغیر ایک لفظ بھی نہیں لکھتا ہے۔
لیکن اگر اس کے برعکس آپ سے کہا جائے کہ( اگر چہ ممکن ہے یہ کتاب بظاہر خوبصورت ہو،لیکن) اس کا مصنف ایک کم علم شخص ہے اور کسی قسم کی علمی صلاحیت نہیں رکھتا ہے اور اس کے کام میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہے!
واضح ہے کہ آپ اس قسم کی کتاب پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے اور جہاں پر بھی کوئی ناقابل فہم مطلب نظر آئے گا اسے مصنف کی کم علمی کا نتیجہ تصور کریں گے اور سوچیں گے کہ اس پر وقت صرف کر نے سے کوئی فائدہ نہیں ہے !
کائنات کی مثال بھی ایک عظیم کتاب کے مانند ہے کہ اس میں موجود ہر مخلوق اس کا ایک لفظ یا جملہ ہے۔ایک خداشناس شخص کی نظر میں کائنات کے تمام ذرّات قابل غور ہیں۔ایک با ایمان انسان خدا پرستی کے نور کے پر تو میں ایک خاص تفکر و تدبر کے ساتھ خلقت کے اسرار کا مطالعہ کرتا ہے (اور یہی موضوع انسان کے علم ودانش کی تر قی میں مدد گار ثابت ہوتا ہے)کیو نکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کا خالق،بے انتہا علم وقدرت رکھتا ہے ،اور اس کے تمام کام حکمت وفلسفہ کی بنیاد پر ہیں ،اس لئے وہ اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کر تا ہے ،گہری تحقیق کرتا ہے تاکہ اس کے اسرار کو بہتر صورت میں درک کرے۔
لیکن ایک مادہ پرست انسان خلقت کے اسرار کا گہرا مطالعہ کر نے کا شوق ہی نہیں رکھتا ہے،کیونکہ وہ بے شعور طبیعت کو ان کا خالق جانتا ہے ۔اگر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بعض مادی دانشور سائنسی ایجادات انجام دیتے ہیں ،یہ اس لئے ہے کہ وہ غالباًخدا کو قبول کرتے ہیں ،صرف اس کا نام طبیعت رکھتے ہیں ،کیونکہ وہ طبیعت کے کام کے سلسلہ میں ”نظم“،”حساب“اور”نظام“کے قائل ہیں۔مختصر یہ کہ خدا پرستی علم ودانش کی ترقی کا وسیلہ ہے۔

۲۔خدا کی معرفت اور تلاش وامید
جب انسان اپنی زندگی میں سخت اور پیچیدہ حوادث سے دوچار ہو تا ہے اور بظاہر اس پر ہر طرف سے امید کے دروازے بند ہو جاتے ہیںاور مشکلات کے مقابلہ میں کمزوری،ناتوانی اور تنہائی کا احساس کرتا ہے تو اس وقت خداپر ایمان اس کی مدد کرتا ہے اور اسے توانائی بخشتا ہے۔
جو لوگ خداپر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی اپنے آپ کوتنہا اور ناتواںنہیں پاتے،نا امید نہیں ہوتے،کمزوری اور ناتوانائی کا احساس نہیں کرتے ،کیو نکہ خدائی طاقت تمام مشکلات سے بالاتر ہے اور خدا کے سامنے تمام چیزیں آسان ہیں ۔
ایسے لوگ پروردگارعالم کی مہربانی،حمایت اور مدد کی امید کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی پوری طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں اور عشق و امید کے ساتھ سعی و کوشش کو جاری رکھتے ہیں اور مشکلات پر غلبہ پاتے ہیں۔
جی ہاں!خدا پر ایمان انسانوں کے لئے ایک بڑا سہارا ہے۔
خدا پر ایمان استقامت اور پائداری کا سبب ہے۔
خدا پر ایمان،دلوں میں امید کی کرن کو ہمیشہ باقی رکھتا ہے۔اسی لئے با ایمان افرادکبھی خود کشی کا اقدام نہیں کرتے ہیں کیو نکہ خودکشی کا سر چشمہ مکمل نا امیدی اورناکامی کا احساس ہے ،لیکن با ایمان افراد نہ ہی نا امید ہو تے ہیں اور نہ ہی ناکامی کا احساس کر تے ہیں۔

۳۔خدا کی معرفت اورذمہ داری کا احساس
ہم ایسے ڈاکٹروں کو جانتے ہیں کہ جب کوئی تنگ دست بیمار ان کے پاس آتا ہے تو نہ صرف وہ اس سے فیس نہیں لیتے بلکہ اس کی دوائی کے پیسے بھی اپنے جیب سے دیتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر اپنے بیمار کے بارے میں خطرہ کا احساس کرتے ہیں تو اس کی جھونپڑی میں رات بھر اس کے سر ہانے بیٹھے رہتے ہیں ۔یہ خداپرست اور با ایمان افراد ہیں۔
لیکن ہم ایسے ڈاکٹروں کو بھی جانتے ہیں کہ پیسے لئے بغیر بیمار کے لئے کسی قسم کا اقدام نہیں کرتے ہیں ،کیو نکہ یہ قوی ایمان نہیں رکھتے۔
ایک با ایمان انسان جس عہدہ پر بھی فائز ہو،ذمہ داری کا احساس کرتا ہے،وہ فرض شناس ہو تا ہے ،نیک اور بخشنے والا ہو تا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے اندر ایک معنوی پلیس کو حاضر پاتا ہے جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔
لیکن بے ایمان افراد خود خواہ،خود غرض اور خطر ناک ہوتے ہیں اور اپنے لئے کبھی ذمہ دار ی کے قائل نہیں ہوتے۔ان کے لئے ظلم وستم اور دوسروں کی حق تلفی کرنا آسان ہو تا ہے اور نیک کام انجام دینے کے لئے حاضر نہیں ہوتے ہیں۔

۴۔ خدا کی معرفت اور سکون قلب
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ موجودہ زمانہ میں نفسیاتی اور روحی بیماریاں دوسرے زمانوں کی نسبت زیادہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کا ایک سبب احساس پریشانی ہے،مستقبل کے حوادث کی پریشانی ،موت کی پریشانی،جنگ کی پریشانی اور فقر و ناکامی کی پریشانی۔
لیکن اس کے بعد وہ کہتے ہیں:انسان کی روح سے پریشانیوں اور اضطرابوں کو دور کر نے والی چیزوں میں سے ایک خدا پر ایمان ہے ۔کیونکہ جب بھی پریشانی کے عوامل و اسباب اس کی روح پر اثر انداز ہو نا چاہتے ہیں خدا پر ایمان انھیں پیچھے ہٹا دیتا ہے۔
خدا جو مہر بان ہے،خدا جو رزق دیتا ہے،خدا جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ہے اور اس کے بندے جب بھی اس کی طرف رخ کرتے ہیں ،وہ ان کی مدد کرتا ہے اور مشکلات سے انھیں نجات بخشتا ہے۔
اسی لئے حقیقی مو منین ہمیشہ سکون احساس کرتے ہیں اور ان کی روح میں کبھی اضطراب نہیں ہوتا ہے اور چونکہ ان کاکام خدا کے لئے ہوتا ہے اس لئے اگر کبھی کوئی نقصان بھی اٹھاتے ہیں تو اسی سے تلافی چاہتے ہیں ،یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہو تی ہے۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورئہ انعام/۸۲)
”جو لوگ ایمان لے آئے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا اور انھیں کے لئے امن وسکون ہے۔“

خدا کی تلاش


۔کائنات سے واقفیت کا شوق
خلقت کائنات کے بارے میں آگاہی اور آشنائی حاصل کر نے کا شوق ہم سب میں پایا جاتاہے۔
یقینا ہم سب جاننا چاہتے ہیں:
خوبصورت ستاروں سے چمکتا ہوا یہ بلندوبالا آسمان ،دلکش مناظرسے بھری یہ وسیع زمین ،یہ رنگ برنگ مخلوقات،خوبصورت پرندے ،طرح طرح کی مچھلیاں ،سمندر اور پہاڑ،کلیاں اور پھول،سر بہ فلک قسم قسم کے درخت اور..کیا خود بخودپیدا ہو گئے ہیں یا یہ عجیب و غریب نقشے کسی ماہر ،قادر و غالب نقاش کے ہاتھوں کھینچے گئے ہیں؟..
اس کے علاوہ ہماری زندگی میں ہم سب کے لئے جو ابتدائی سوالات پیدا ہو تے ہیں ،وہ یہ ہیں:
ہم کہاں سے آئے ہیں ؟کہاں پر ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟
اگرہم ان مذکورہ تینوں سوالات کے جواب جانیں تو کتنے خو ش قسمت ہوں گے؟یعنی ہم جا نیں کہ ہماری زندگی کا آغاز کہاں سے ہوا ہے اور سر انجام کہاں جائیں گے؟اور اس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہے؟
ہمارا ضمیر ہم سے کہتا ہے :مذکورہ سوالات کے جواب حاصل کر نے تک آرام سے نہ بیٹھنا۔
کبھی کو ئی شخص ٹریفک حادثہ میں زخمی ہو کر بے ہوش ہو جا تا ہے اور معالجہ کے لئے اسے ہسپتال لے جاتے ہیں۔جب اس کی حالت قدرے بہتر ہو تی ہے اور وہ ہوش میں آتا ہے تو اپنے ارد گرد موجودافراد سے اس کا پہلا سوال یہ ہو تا ہے:یہ کون سی جگہ ہے؟مجھے کیوں یہاں لایا گیا ہے؟میں کب یہاں سے جاؤں گا؟اس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان ایسے سوالات کے مقابلہ میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے ۔
اس لئے جو چیز ہمیں سب سے پہلے خدا کی تلاش اور خالق کائنات کی معرفت حاصل کر نے پر مجبور کرتی ہے ،وہ ہماری تشنہ اور متلاشی روح ہے۔

۲۔شکر گزاری کا احساس۔
فرض کیجئے آپ کی ایک محترم مہمان کی حیثیت سے دعوت کی گئی ہے اور آپ کی مہمان نوازی اور آرام و آسائش کے تمام وسائل مہیا کئے گئے ہیں ۔لیکن چونکہ یہ دعوت آپ کے بڑے بھائی کے توسط سے انجام پائی ہے اور اپنے اسی بھائی کے ہمراہ دعوت پر گئے ہیں اور وہ اپنے میز بان کو اچھی طرح سے نہیں پہچانتے،اس لئے اس دعوت پر پہنچتے ہی آپ سب سے پہلے اپنے میز بان کو پہچان کر اس کا شکریہ بجا لانے کی کوشش کریں گے۔
ہم بھی جب خالق کائنات کے بچھائے ہوئے خلقت کے اس وسیع دستر خوان پر نظر ڈالتے ہیں اور بینائی والی آنکھیں،سننے کے کان ،عقل وہوش،مختلف جسمانی اور نفسیاتی توانائیاں،زندگی کے مختلف وسائل اور پاک و پاکیزہ رزق جیسی گو نا گوں نعمتوں کو اس وسیع دستر خوان پر دیکھتے ہیں تو بے ساختہ اس فکر میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں عطا کر نے والے کو پہچان لیںاور اگر چہ وہ ہمارے شکریہ کا محتاج بھی نہ ہو،ہمیں اس کا شکر یہ بجا لاناچاہئے اورجب تک یہ کام انجام نہ دیں،ہم بے چینی اور کمی کا احساس کرتے ہیں ،لہذا یہ ایک اور دلیل ہے جو ہمیں خدا کوپہچاننے کی طرف ترغیب دیتی ہے۔

۳۔خدا کی معرفت سے ہمارے نفع و نقصان کا تعلق۔
فرض کیجئے اپنے سفر کے راستہ پرآپ ایک چورا ہے پر پہنچے،وہاں پر شور وغل بر پا ہے،سب پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس چوراہے پر نہ رکئے،یہاں بڑے خطرات ہیں۔ لیکن ہر ایک ہماری الگ الگ راستے کی طرف راہنمائی کر تا ہے ۔ایک کہتا ہے :بہترین راستہ یہ ہے کہ مشرق کی طرف چلے جائیں،دوسرا مغرب کی طرف مطمئن ترین راستہ بتاتا ہے اور تیسرا ہمیں ان دو راستوں کے بیچ والے راستہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے ،اور کہتا ہے خطرہ سے بچنے کا اور منزل نیز امن وامان اور سعادت وخوش بختی کی جگہ تک پہنچنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔
کیا ہم یہاں پر غور وفکر اور تحقیق کئے بغیر ان راستوں میں سے کسی ایک راستہ کا انتخاب کریں گے؟یا ہماری عقل ہمیں یہ حکم دے گی کہ وہیں پر رکے رہیںاور کسی راستہ کا انتخاب نہ کریں؟قطعاًایسا نہیں ہے۔
بلکہ عقل ہمیں حکم دیتی ہے کہ اس حالت میں جتنی جلد ممکن ہو تحقیق کریں اور ان افراد کی تجویزوں میں سے ہر ایک پر غور و فکر کے بعد جس کسی کے بارے میں صحیح اور سچ ہو نے کی نشانیاں اور اطمینان بخش دلائل موجود ہوں،اسے قبول کریں اور اطمینان کے ساتھ اس راہ کو منتخب کر کے آگے بڑھیں۔
اس دینوی زندگی میں بھی ہماری یہی حالت ہے ۔مختلف مذاہب اور مکاتب فکر میں سے ہر ایک ہمیں اپنی طرف دعوت دیتا ہے ۔لیکن چونکہ ہماری تقدیر،ہماری خوشبختی وبد بختی، ہماری ترقی وتنزل کا دار ومدار بہترین راستہ کی تحقیق اور اس کے انتخاب کرنے پر ہے،اس لئے ہم مجبور ہیں کہ اس سلسلہ میں غور وفکر کریں اور جو راستہ ہماری ترقی و تکامل کے موجب ہو اسے اپنے لئے چن لیں اور جو ہماری نابودی ،بدبختی اور بربادی کا سبب ہو اس سے پر ہیز کریں۔
یہ بھی ہمارے لئے خالق کائنات کے بارے میں مطالعہ اور تحقیق کر نے کی طرف دعوت کر نے کی ایک اور دلیل ہے۔
قرآن مجید فر ماتا ہے:
(سورئہ زمردآیہ/۱۸)
” میرے ان بندوں کو بشارت دیجئے،جو مختلف باتوں کو سنتے ہیں اور ان میں جو بات اچھی ہو تی ہے اسی کا اتباع کرتے ہیں۔“